کیاقرآن حکیم سے بیک وقت تین طلاق کا ثبوت نہیں؟

 

از: مولانا حبیب الرحمن اعظمی (مدیر)

 

اسلام دین فطرت اور ایک جامع نظام زندگی ہے جو راستی وسچائی کا آخری بیان ہونے کی بنا پر کسی ترمیم وتبدیلی کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس کی تعلیمات میں ایک طر ف صلابت وقطعیت ہے تو دوسری طرف وہ اپنے اندر بے کراں جامعیت اور ہمہ گیری لیے ہوئے ہے۔ جس میں ہردم رواں پیہم دواں زندگی کے مسائل کے حل کی بھرپور صلاحیت ہے۔

قرآن حکیم جو خدائے لم یزل کا ابدی فرمانِ ہدایت ہے اصول وکلیات سے بحث کرتا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان وحیِ ترجمان سے ان اصول وکلیات کی تشریح وتوضیح فرمائی ہے اور اپنے معصوم عمل سے ان کی تطبیق وتنفیذ کا مثالی نمونہ پیش کیاہے۔ صحابہٴ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین وتابعین عظام، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین قانون اسلامی کے انھیں دونوں ماخذوں یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں اجماع واجتہاد کے ذریعہ اپنے اپنے دور میں پیش آمدہ مسائل وحوادث کا حل امت کے سامنے پیش کرتے رہے جس کا سلسلہ علماء حق کے ذریعہ کسی نہ کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔

مغربی تہذیب جس کی بنیاد ہی اباحیت اور مذہبی واخلاقی قدروں کی پامالی پر ہے بدقسمتی سے آج پوری دنیا پر حاوی ہے۔ جس سے ہمارا ملک بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کی اسی اباحیت پسندی کی بنا پر آج کل بے ضرورت مسائل کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ملک کا روشن خیال طبقہ جو نہ صرف مغربی تہذیب کادلدادہ ہے؛ بلکہ اس کا ترجمان ونمائندہ بھی ہے۔ ان بے ضرورت مسائل کو اٹھاتا رہتا ہے، حتیٰ کہ ایسے مسائل جو عہد صحابہ میں اجماعی طور پر طے پاچکے ہیں ان میں بھی تشکیک والتباس اور شکوک وشبہات ظاہر کرکے (جس کی انھیں بہ طور خاص تعلیم دی گئی ہے) ان کے لیے علماء سے من چاہے فتویٰ وفیصلہ کا ناروا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔

مزید برآں عربی زبان وادب، قرآن وحدیث اور ان سے متعلق ضروری علم سے واجبی واقفیت کے بغیر یہ طبقہ دینی وشرعی مسائل میں اجتہاد کے فرائض انجام دینے کے خبط میں بھی مبتلا ہے اور کوشاں ہے کہ ائمہ مجتہدین وسلف صالحین کے بے لوث جہدوعمل کے ثمرات اور ان کی مخلصانہ کاوش سے حاصل شدہ متاع گراں مایہ جو مختلف مذاہب فقہ کی شکل میں امت کے پاس موجود ہے اسے نذر آتش کرکے از سر نو مسائل کے حل تلاش کیے جائیں؛ چنانچہ ”طلاق ثلاث“ کا مسئلہ اس کی زندہ مثال ہے جو آج کل ہمارے ان روشن خیال دانشوروں کی اجتہاد پسند اور ا باحیت نواز فکر ونظر سے گزرکر زبان وقلم کا ہدف بنا ہوا ہے اور عورتوں کی مفروضہ مظلومیت کا نام لے کر اسلام اور علماء اسلام کو دل کھول کر طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے، ایک ایسا مسئلہ جو چودہ سو برس پہلے طے پاچکا ہے جسے تمام صحابہ، جمہور تابعین، تبع تابعین، اکثر محدثین، فقہاء مجتہدین، بالخصوص ائمہ اربعہ اور امت کے سواد اعظم کی سند قبولیت حاصل ہے جس کی پشت پر قرآن محکم اور نبی مرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث قویہ ہیں۔ اس کے خلاف آواز اٹھاکر اور عامة المسلمین کو اس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا کرکے یہ اسلام کے نادان دوست اسلام کی کون سی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ان لوگوں کو قطعاً اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ان کے اس طرز عمل کا سلف پر کیا اثر پڑے گا، ان کے متعلق عوام کا کیا تصور قائم ہوگا اور ان اکابر اسلام پر عوام کا اعتماد باقی رہے گا یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس غیر معقول رویہ سے نہ صرف ملت کی تضحیک ہورہی ہے؛ بلکہ اسلام مخالف عناصر کے لیے مسلم پرسنل لاء میں ترمیم وتبدیلی کا جواز بھی فراہم ہورہاہے؛ مگر ہمارے یہ دانشور چپ وراست سے آنکھیں بند کرکے شوقِ اجتہاد اور جوشِ تجدد میں اپنے ناوک قلم سے دینی احکام ومسائل میں رخنہ اندازی میں مصروف ہیں۔ (فالی اللّٰہ المشتکی)

نکاح کی اہمیت

اسلامی شریعت میں نکاح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس سے متعلق خصوصی احکامات صادر ہوئے ہیں اور ان کی ترغیب صریح ارشادات نبوی میں موجود ہے۔ ایک طویل حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فمن رغب عن سنتی فلیس منی“ جو میری سنت نکاح سے اعراض کرے گا وہ میرے طریقہ سے خارج ہے۔ (بخاری شریف، ج:۲، ص:۵۵۷)

ایک اور حدیث میں فرمایا ”ان سنتنا النکاح“ نکاح ہماری سنت ہے۔ (مسند امام احمد، ج:۵، ص:۱۶۳)

ایک حدیث میں نکاح کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بتایا گیا ہے، خادم رسول انس بن مالک راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تزوج فقد استکمل نصف الایمان فلیتق اللہ فی النصف الباقی“

جس نے نکاح کرلیا اس نے اپنے نصف ایمان کی تکمیل کرلی؛ لہٰذا اسے چاہیے کہ بقیہ نصف کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ (مشکوٰة ۲۶۷ وجمع الفوائد ج۱، ص۲۱۶)

انھیں جیسی احادیث کے پیش نظر امام اعظم ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ نے عبادات نافلہ میں اشتغال کے مقابلہ میں نکاح کو افضل قرار دیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی ایک حیثیت اگر باہمی معاملہ کی ہے تو اسی کے ساتھ عام معاملات و معاہدات سے بالاتر یہ سنت وعبادت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ نکاح کی اسی خصوصی اہمیت کی بنا پر اس کے انعقاد اور وجود پذیر ہونے کے لیے باجماع کچھ ایسے آداب اور ضروری شرائط ہیں جو دیگر معاملات، خرید وفروخت وغیرہ میں نہیں ہیں، مثلاً ہر عورت اور ہر مرد سے نکاح درست نہیں، اس سلسلے میں اسلامی شریعت کا ایک مستقل قانون ہے جس کی رو سے بہت سی عورتوں اور مردوں کا باہم نکاح نہیں ہوسکتا۔ دیگر معاملات کے منعقد ومکمل ہونے کے لیے گواہی شرط نہیں ہے، جب کہ نکاح کے انعقاد کے واسطے گواہوں کا موجود ہونا شرط ہے، اگر مرد وعورت بغیر گواہوں کے نکاح کرلیں تو یہ نکاح قانونِ شرع کے لحاظ سے باطل اور کالعدم ہوگا۔

یہ خصوصی احکام اور ضروری پابندیاں بتارہی ہیں کہ معاملہٴ نکاح کی سطح دیگر معاملات و معاہدات سے بلند ہے، شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور قابلِ احترام معاملہ ہے جو اس لیے کیا جاتا ہے کہ باقی رہے، یہاں تک کہ موت ہی زوجین کو ایک دوسرے سے جدا کردے۔ یہ ایک ایسا قابلِ قدر رشتہ ہے، جو تکمیلِ انسانیت کا ذریعہ اور رضائے الٰہی واتباعِ سنت کا وسیلہ ہے، جس کے استحکام پر گھر، خاندان اور معاشرے کا استحکام موقوف ہے اور جس کی خوبی وخوشگواری پر معاشرے کی خوبی وبہتری کا دارومدار ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے انقطاع اور ٹوٹنے سے صرف فریقین (میاں بیوی) ہی متاثر نہیں ہوتے؛ بلکہ اس سے پورے نظام خانگی کی چولیں ہل جاتی ہیں اور بسا اوقات خاندانوں میں فساد ونزاع تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے جس سے معاشرہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اسی بناء پر بغیر ضرورت طلاق (جو رشتہٴ نکاح کو منقطع کرنے کا شرعی ذریعہ ہے) خدائے دوجہاں کے نزدیک ایک ناپسندیدہ اورناگوار عمل ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”أبغض الحلال الی اللہ عز وجل الطلاق“ اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ مبغوض اور کوئی چیز نہیں۔ (سنن ابی داؤد ج۱، ص۳۰۲، المستدرک للحاکم ج۲، ص۱۶۹ وقال الذہبی صحیح علی شرط مسلم)

اسلام کا ضابطہٴ طلاق

اس لیے جو اسباب ووجوہ اس بابرکت اور محترم رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، انھیں راہ سے ہٹانے کا کتاب وسنت کی تعلیمات نے مکمل انتظام کردیا ہے۔ زوجین کے باہمی حالات ومعاملات سے متعلق قرآن وحدیث میں جو ہدایتیں دی گئی ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ یہ رشتہ کمزور ہونے کی بجائے پائیدار اور مستحکم ہوتا چلا جائے۔ ناموافقت کی صورت میں افہام وتفہیم، پھر زجر وتنبیہ اور اگر اس سے کام نہ چلے اور بات بڑھ جائے تو خاندان ہی کے افراد کو حکم وثالث بناکر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

لیکن بسااوقات حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اصلاح حال کی یہ ساری کوششیں بے سود ہوجاتی ہیں اور رشتہ ازدواج سے مطلوب ثمرات وفوائد حاصل ہونے کے بجائے زوجین کا باہم مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی ناگزیر حالت میں ازدواجی تعلق کا ختم کردینا ہی دونوں کے لیے؛ بلکہ پورے خاندان کے لیے باعث راحت ہوتا ہے، اس لیے شریعت اسلامی نے طلاق اور فسخ نکاح کا قانون بنایا، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیاگیا جس میں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ میں فکر وتدبراور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، علاوہ ازیں مرد کی قوامیت وافضلیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ اختیار صرف اسی کو حاصل ہو؛ لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا کہ وہ ”کالمیت فی ید الغسال“ شوہر کے ہر ظلم و جور کا ہدف بنی رہے اور اپنی رہائی کے لیے کچھ نہ کرسکے؛ بلکہ اسے بھی یہ حق دیا کہ شرعی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے یا نکاح فسخ کراسکتی ہے۔

پھر مرد کو طلاق کا اختیار دے کر اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑدیا؛ بلکہ اسے تاکیدی ہدایت دی کہ کسی وقتی وہنگامی ناگواری میں اس حق کو استعمال نہ کرے، اس پر بھی سخت تنبیہ کی گئی کہ حق طلاق کو دفعتاً استعمال کرنا غیر مناسب اورنادانی ہے؛ کیونکہ اس صورت میں غور وفکر اور مصالح کے مطابق فیصلہ لینے کی گنجائش ختم ہوجائے گی، جس کا نتیجہ حسرت وندامت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی بھی تاکید کی گئی کہ حیض کے زمانہ میں یا ایسے طہر میں جس میں ہم بستری ہوچکی ہے طلاق نہ دی جائے؛ کیونکہ اس صورت میں عورت کو خوامخواہ طول عدت کا ضرر پہنچ سکتا ہے؛ بلکہ اس حق کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں ہم بستری نہیں کی گئی ہے ایک طلاق دے کر رک جائے، عدت پوری ہوجانے پر رشتہ نکاح ختم ہوجائے گا۔ دوسری یا تیسری طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر دوسری یا تیسری طلاق دینی ہی ہے تو الگ الگ طہر میں دی جائے۔

پھر معاملہ نکاح کے توڑنے میں یہ لچک رکھی کہ ایک یا دو بار صریح لفظوں میں طلاق دینے سے فی الفور نکاح ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ عدت پوری ہونے تک یہ رشتہ باقی رہے گا۔ دوران عدت اگر مرد طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال رہے گا، جب کہ دیگر معاملات بیع وشراء وغیرہ میں یہ گنجائش نہیں ہے۔ نیز عورت کو ضرر سے بچانے کی غرض سے حق رجعت کو بھی دوطلاق تک محدود کردیاگیا؛ تاکہ کوئی شوہر محض عورت کو ستانے کے لیے ایسا نہ کرسکے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے اور رجعت کرکے قید نکاح میں اسے محبوس رکھے؛ بلکہ شوہر کو پابند کردیاگیا کہ اختیار رجعت صرف دو طلاقوں تک ہی ہے، تین طلاقوں کی صورت میں یہ اختیار ختم ہوجائے گا؛ بلکہ فریقین اگر باہمی رضا سے نکاح ثانی کرنا چاہیں تو ایک خاص صورت کے علاوہ یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا۔ آیت پاک ”الطلاق مرتان“ اور ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ میں یہی قانون بیان کیاگیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو معاملہ نکاح ختم ہوگیا اور اب مرد کو نہ صرف یہ کہ رجعت کا اختیار نہیں؛ بلکہ تین طلاقوں کے بعد اگریہ دونوں باہمی رضا سے پھر رشتہٴ نکاح میں منسلک ہونا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے تاوقتیکہ یہ عورت عدتِ طلاق گزارکر دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے، نیز حقوقِ زوجیت سے بہرہ ور ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ آیت کریمہ ”فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا“ میں اسی نکاحِ جدید کا بیان ہے۔ یعنی پھر اگر یہ دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے تو ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ دوبارہ باہم رشتہٴ ازدواج قائم کرلیں۔ شریعتِ اسلامی کے وضع کردہ اس ضابطہٴ طلاق پر اگر پورے طور پر عمل کیا جائے تو طلاق دینے کے بعد نہ کسی شوہر کو حسرت وندامت سے دوچار ہونا پڑے گا اورنہ ہی کثرتِ طلاق کی یہ وبا باقی رہے گی، جس کے نتیجہ میں طرح طرح کے ناگوار مسائل پیدا ہوتے ہیں جو نہ صرف مسلم معاشرہ کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں؛ بلکہ اسلام مخالف عناصر کو اسلامی قانونِ طلاق میں کیڑے نکالنے اور طعنہ زنی کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے: ”لو ان الناس اصابو احد الطلاق ما ندم رجل طلق امرأتہ“ اگر لوگ طلاق سے متعلق پابندیوں پر قائم رہیں تو کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے کر گرفتار ندامت نہیں ہوگا۔ (احکام القرآن جصاص رازی ج۱، ص۳۸۷)

اس موقع پرایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اگر کسی نے ازراہِ حماقت وجہالت طلاق کے مستحسن اور بہتر طریقہ کو چھوڑ کر غیر مشروع طور پر طلاق دے دی، مثلاً الگ الگ تین طہروں میں طلاق دینے کے بجائے ایک ہی مجلس میں یا ایک ہی تلفظ میں تینوں طلاقیں دے ڈالیں تو اس کا اثر کیا ہوگا؟

آج کل ایک خاص مقصد کے تحت ایک مخصوص طبقہ مختلف ذرائع سے عامة المسلمین کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ایک مجلس یا ایک تلفظ میں دی گئی تین طلاقیں شرعاً ایک ہی شمارہوں گی اور اس طرح دی گئی تین طلاقوں کے بعد ازدواجی تعلق برقرار اور شوہر کو رجعت کا اختیار باقی رہے گا؛ جب کہ ظاہر قرآن، احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور اقوال فقہاء ومحدثین سے ثابت ہے کہ مجلسِ واحد یا کلمہٴ واحدہ کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ شریعتِ اسلامی کا یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر عہدِ فاروقی میں حضراتِ صحابہ کا اجماع واتفاق ہوچکا ہے، جس کے بعد اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اسی بنا پر ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بیک زبان کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق چاہے بیک لفظ دی جائیں یا الگ الگ لفظوں سے واقع ہوجاتی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد چاہے، وہ جس طرح بھی دی گئی ہوں رجعت کرنا ازروئے شرع ممکن نہیں ہے۔ یہی جمہور سلف وخلف کا مسلک ہے۔ ذیل میں اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی تین آیتوں کی تفسیرپیش کی جارہی ہیں۔

(۱)    آیت پاک الطلاق مرتان الخ کی تفسیر

مسئلہ زیربحث میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرآن حکیم کی ”آیت طلاق“ پر غور کرلیا جائے؛ کیونکہ مسئلہٴ طلاق میں اس کی حیثیت ایک بنیادی ضابطہ اور قانون کی ہے۔ اس آیت کی تفسیر وتاویل معلوم ہوجانے سے انشاء اللہ مسئلہ کی بہت ساری گتھیاں از خود سلجھ جائیں گی۔

عہدِ جاہلیت میں طلاقیں دینے اور پھر عدت میں رجوع کرلینے کی کوئی حد نہیں تھی، سیکڑوں طلاقیں دی جاسکتی تھیں اور پھر عدت کے اندر رجوع کیاجاسکتا تھا، بعض لوگ جنھیں اپنی بیویوں سے کسی بناء پر کدہوجاتی اور وہ انھیں ستانا اور پریشان کرنا چاہتے تو طلاقیں دے دے کر عدت میں رجوع کرتے رہتے تھے، نہ خود ان کے ازدواجی حقوق ادا کرتے اورنہ انھیں آزاد کرتے اور اس طرح وہ مجبور محض اور بے بس ہوکر رہ جاتی تھیں، جب تک طلاق سے متعلق اسلام میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا مسلمانوں میں بھی طلاق کایہی طریقہ جاری رہا، امام قرطبی لکھتے ہیں: ”وکان ھذا اوّل الاسلام برہة“ (جامع احکام القرآن ج۳، ص۱۲۶) ابتدائے اسلام میں ایک عرصہ تک یہی طریقہ رائج رہا۔

اخرج البیھقی بسندہ عن ھشام ھِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا قَالَتْ: ”کَانَ الرَّجُلُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ مَا شَاءَ أَنْ یُطَلِّقَھَا وَإِنْ طَلَّقَھَا مِائَةً أَوْ أَکْثَرَ إِذَا ارْتَجَعَھَا قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ عِدَّتُھَا حَتَّی قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِہِ لَا أُطَلِّقُکِ فَتَبِینِی وَلَا أُؤْوِیکِ إِلِیَّ قَالَتْ: وَکَیْفَ ذَاکَ؟ قَال: أُطَلِّقُکِ فَکُلَّمَا ھَمَّتْ عِدَّتُکِ أَنْ تَنْقَضِیَ ارْتَجَعْتُکِ وَأَفْعَلُ ھَکَذَا! فَشَکَتِ الْمَرْأَةُ ذَلِکَ إِلَی عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا فَذَکَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِکَ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَکَتَ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ) الآیة، فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ فَمَنْ شَاءَ طَلَّقَ وَمَنْ شَاءَ لَمْ یُطَلِّقْ“ وَرَوَاہُ أَیْضًا قُتَیْبَةُ بْنُ سَعِیدٍ وَالْحُمَیْدِیُّ عَنْ یَعْلَی بْنِ شَبِیبٍ وَکَذَلِکَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ بِمَعْنَاہُ وَرُوِیَ نُزُولُ الآیَةِ فِیہِ عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا (سنن الکبریٰ للبیقہی مع الجوہر النقی ج۷، ص۳۳۳ مطبوعہ حیدرآباد)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینا چاہتا دے سکتا تھا، اگرچہ وہ طلاقیں سیکڑوں تک پہنچ جائیں ، بشرطیکہ عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلے، یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تجھے اس طرح طلاق نہ دوں گا کہ تو مجھ سے الگ ہوجائے اورنہ میں تجھے اپنی پناہ ہی میں رکھوں گا، اس عورت نے پوچھا کہ یہ معاملہ تم کس طرح کروں گے، اس نے جواب دیا: میں تجھے طلاق دوں گا اور جب عدت پوری ہونے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا، طلاق اور رجعت کا یہ سلسلہ جاری رکھوں گا، اس عورت نے اپنے شوہر کی اس دھمکی کی شکایت حضرت عائشہ سے کی، حضرت عائشہ نے اس کا ذکر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے اس پر کچھ فرمایا نہیں؛ تاآنکہ قرآن حکیم کی آیت (الطلاق مرتان الخ) نازل ہوگئی، تو اس وقت سے لوگوں نے آیت کے مطابق طلاق کی ابتدا کی جس نے چاہا اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور جس نے چاہا نہ دی، امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس روایت کو قتیبہ بن سعید اور حمیدی نے بھی یعلی بن شبیب کے واسطہ سے نقل کیا ہے، اسی طرح محمد ابن اسحاق امام المغازی نے ہشام کے واسطہ سے حضرت عائشہ سے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ اسے بیان کیا ہے۔

وأخرج ابن مردویة بسندہ عن عائشة قالت لم یکن للطلاق وقت یطلق الرجل امرأة ثم یراجعھا مالم تنقص العدة فوقت لھم الطلاق ثلاثا یراجعھا فی الواحدة والثنتین ولیس فی الثالثة رجعة حتی تنکح زوجا غیرہ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۲۷۲)

”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ طلاق کی کوئی حد نہیں تھی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیا کرتاتھا تو ان کے لیے تین طلاق کی حد مقرر کردی گئی ایک اور دو طلاقوں تک رجعت کرسکتا ہے، تیسری کے بعد رجعت نہیں تاوقتیکہ مطلقہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔“

اس روایت کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے ورواہ الحاکم فی مستدرکہ وقال صحیح الاسناد، اس روایت کو امام حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔

حضرت ابن عباس کی روایت ہے:

أخرج أبوداوٴد عن ابن عباس رضي اللہ عنھما ”المطلقات یتربصن فانفسھن ثلاثة قروء ولا یحل لھن أن یکتمن ما خلق اللہ فی أرحامھن“ الآیة وذلک أن الرجل کان اذا طلق امرأتہ فھو أحق برجعتھا وان طلقھا ثلاثًا فنسخ ذلک فقال ”الطلاق مرتان“ (بذل المجھود شرح سنن أبو داود باب فی سنخ المراجعة بعد التطلیقات الثلاث ج۲، ص۶۱)

”مطلقہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک اور انھیں حلال نہیں اس چیز کا چھپانا جواللہ نے ان کے رحم میں پیدا کی ہے، دستور یہ تھا کہ مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو رجعت کا حق رکھتا تھا، اگرچہ تین طلاقیں دی ہوں پھر اس طریقہ کو منسوخ کردیاگیا، اللہ جل شانہ نے فرمایا: الطلاق مرتان، یعنی طلاق رجعی دو ہیں۔

الفاظ کے فرق کے ساتھ سبب نزول سے متعلق اسی طرح کی روایتیں موطا امام مالک اور جامع ترمذی اور تفسیر طبری وغیرہ میں بھی ہیں، ان تمام روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ آیت کریمہ ”الطلاق مرتان“ کے ذریعہ قدیم طریقہ کو منسوخ کرکے طلاق اور رجعت دونوں کی حد متعین کردی گئی کہ طلاق کی تعداد تین ہے اور رجعت دو طلاقوں تک کی جاسکتی ہے اس کے بعد رجعت کا اختیار ختم ہوجائے گا ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ دو کے بعد اگر تیسری طلاق دے دی تو بیوی حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ کسی مرد سے نکاح کرلے، حدیث میں ”تنکح زوجا غیرہ“ کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ دوسرا شوہر لطف اندوز صحبت بھی ہو۔

قدوة المفسرین امام ابن جریر طبری متوفی ۳۰۹ھ سبب نزول کی روایت متعدد سندوں سے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

فتاویل الآیة علی ھذا الخبر الذی ذکرنا، عدد الطلاق الذی لکم أیھا الناس فیہ علی ازواجکم الرجعة اذا کن مدخولا بھن تلطیقتان ثم الواجب بعد التطلیقتین امساک بمعروف او تسریح باحسان لانہ لا رجعة لہ بعد التطلیقتین ان سرحھا فطلقھا الثلاث

”آیت پاک کی تفسیر ان روایتوں کے پیش نظر جو ہم نے اوپر ذکر کی ہیں یہ ہے کہ طلاق کی وہ تعداد جس میں تمھیں اے لوگو اپنی مطلقہ بیویوں سے رجعت کا حق ہے؛ جبکہ ان سے ہم بستری ہوچکی ہو دو طلاقیں ہیں۔ ان دو طلاقوں کے بعد خوش اسلوبی کے ساتھ نکاح میں روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اس لیے کہ دو طلاقوں کے بعد رجعت نہیں ہے، اگر چھوڑنا چاہے تو تیسری طلاق دے دے۔“

اس کے بعد آیت سے متعلق دوسرا قول ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

وقال الآخرون انما انزل ھذہ الآیة علی نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تعریفاً من اللہ تعالیٰ ذکرہ عبادہ سنة طلاقھم نسائھم اذا ارادوا طلاقھن لا دلالتہ علی القدر الذی تبین بہ المرأة من زوجھا وتاویل الآیة علی قول ھٰوٴلاء سنة الطلاق التی سنتھا وابحتھا لکم ان اردتم طلاق نسائکم ان تطلقوھن ثنتین فی کل طھر واحدة ثم الواجب بعد ذلک علیکم اما ان تمکسوھن بمعروف او تسرحوھن باحسان

”اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ یہ آیت منجانب اللہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اللہ کی طرف سے بندوں کو اپنی بیویوں کو طریقہ طلاق سکھانے کے لیے، اس آیت کا مقصد طلاق بائن کی تعداد بیان کرنا نہیں ہے، ان حضرات کے اس قول کے تحت آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ طلاق کا طریقہ جو میں نے جاری اور تمہارے لیے مباح کیا، یہ ہے کہ اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو انھیں دو طلاقیں ایک ایک طہر میں دو، ان دو طلاقوں کے بعد تم پر واجب ہوگا کہ انھیں دستور شرعی کے مطابق روک لو یا خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو۔“

شان نزول سے متعلق ان دونوں روایتوں ا ور ان کے تحت آیت کی تفسیر نقل کرنے کے بعد اپنی ترجیحی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

(۱) والذی أولی بظاھر التنزیل ما قالہ عروة وقتادة ومن قال مثل قولھما من ان الآیة انما ھی دلیل علی عدد الطلاق الذی یکون بہ التحریم وبطلان الرجعة فیہ والذی یکون فیہ الرجعة منہ وذلک ان اللہ تعالیٰ ذکرہ قال فی الآیة التی تتلوھا ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ“ فعرف عبادہ القدر الذی بہ تحرم المرأة علی زوجھا الا بعد زوج ولم یبین فیھا الوقت الذی یجوز الطلاق فیہ والوقت الذی لایجوز فیہ (جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج۳، ص۲۵۹)

”ظاہر قرآن سے زیادہ قریب وہی بات ہے جو عروہ، قتادہ وغیرہ نے کہی ہے، یعنی یہ آیت دلیل ہے اس عددطلاق کی جس سے عورت حرام اور رجعت کرنی باطل ہوجائے گی اور جس طلاق کے بعد رجعت ہوسکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد ”فان طلّقھا فلا تحل لہ“ کا ذکر کرکے بندوں کو طلاق کی اس تعداد کو بتایا ہے جس سے عورت اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی؛ مگر یہ کہ دوسرے شوہر سے رشتہٴ نکاح قائم کرلے، اس موقع پر ان اوقات کا ذکر نہیں فرمایا ہے جن میں طلاق جائز اورناجائز ہوتی ہے۔“

امام ابن جریر طبری کے علاوہ حافظ ابن کثیر اورامام رازی نے بھی اسی تفسیر کو راجح قرار دیاہے، نیز علامہ سید آلوسی حنفی نے اس کو ”الیق بالنظم و اوفق بسبب النزول“ (یعنی نظم قرآن سے زیادہ مناسب اور سبب نزول سے خوب چسپاں ہے) بتایا ہے۔ (روح المعانی ج۲، ص۱۳۵)

آیت پاک ”الطلاق مرتان“ کی اس تفسیر کا (جسے امام طبری وغیرہ نے اولیٰ اور راجح قرار دیا ہے) سبب نزول سے موافق ہونا تو ظاہر ہے، رہی بات نظم قرآن کے ساتھ اس تفسیر کی مناسبت ومطابقت کی تو اس کو سمجھنے کے لیے آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالیے، آیت زیر بحث سے پہلے ”والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثة قروء“ کا ذکر ہے طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں تین حیض تک ”بعد ازاں اس مدت انتظار میں شوہر کے حق رجعت کا حکم بیان فرمایا گیا وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا“ اور ان کے شوہر حق رکھتے ہیں ان کے لوٹالینے کا اس مدت میں اگر چاہیں سلوک سے رہنا۔

اس آیت کے نزول کے وقت قدیم رواج کے مطابق حق رجعت بغیر کسی قید کے بحالہ باقی تھا چاہے سیکڑوں طلاقیں کیوں نہ دی جاچکی ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۲۷۱) اور اس بے قید حق رجعت سے عورتیں جس ناقابل برداشت مصیبت میں مبتلا ہوجاتی تھیں، اس کا اندازہ سببِ نزول سے متعلق اوپر مذکور روایت سے ہوچکا ہے؛ چنانچہ اس کے بعد آیت ”الطلاق مرتان“ نازل ہوئی، جس کے ذریعہ قدیم طریقہ کو ختم کرکے ایک جدید قانون نافذ کردیاگیا کہ رجعت کا حق صرف دو طلاقوں تک ہوگا، اس کے بعد طلاق کی آخری حد بیان کرنے کے لیے ارشاد ہوا ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ“ اور تین طلاقیں دے دیں تو اب عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے (اور دوسرا شوہر اس کی صحبت سے لطف اندوز نہ ہولے۔ الحدیث) اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم کرنا جائز نہ ہوگا۔

کلام خداوندی کے اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ”الطلاق مرتان“ کا مقصد نزول طلاق رجعی کی حد اور طلاقوں کی انتہائی تعداد بیان کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ طلاق بلفظ واحد دی گئی ہو یا بالفاظ مکررہ۔ ایک مجلس میں دی گئی ہو یا الگ الگ مختلف مجلسوں میں، بس یہی دو باتیں اس آیت سے ثابت ہوتی ہیں، تفریق مجلس کے لیے اس آیت میں ادنیٰ اشارہ بھی نہیں ہے، لفظ ”مرتان“ کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو طلاقیں بیک وقت وبیک کلمہ نہ دی جائیں؛ بلکہ الگ الگ الفاظ سے دی جائیں۔

مرتین کے معنی کی تحقیق

پھر ”مرتان“ کا لفظ ”مرة بعد اخری“ یعنی یکے بعد دیگرے (ایک کے بعد دوسرا) کے معنی میں قطعی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ لفظ جس طرح یکے بعد دیگرے کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے، اسی طرح ”عددان“ یعنی دوچند اور ڈبل کے معنی میں بھی استعمال کیاگیا ہے، جس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

الف: اولئک یوتون اجرھم مرتین یہ لوگ (یعنی مومنین اہل کتاب) دیے جائیں گے اپنا اجر وثواب دوگنا۔

ب: اسی طرح ازواج مطہرات رضوان اللّٰہ علیہن اجمعین کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔ ومن یقنت منکن للہ ورسولہ وتعمل صالحا نوٴتھا اجرھا مرتین اور جو کوئی تم میں اطاعت کرے اللہ کی اوراس کے رسول کی اور عمل کرے اچھا تو ہم دیں گے اس کو اس کا ثواب دوگنا۔

ان دونوں قرآنی آیتوں میں ”مرتین“ عددین یعنی دو چند اور دوہرے ہی کے معنی میں ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو الگ الگ دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا۔

اب حدیث سے دو مثالیں بھی ملاحظہ کیجیے۔

(۱) بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”العبد اذا نصح لسیدہ وأحسن عبادة ربہ کان لہ اجرہ مرتین غلام جب اپنے آقا کا خیرخواہ ہوگا اور اپنے رب کی عبادت میں مخلص تو اسے دوہرا اجر ملے گا“ یہاں مرتین مضاعفین یعنی دوگنے اور دوہرے ہی کے معنی میں ہے۔

(۲)صحیح مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان أھل مکة سأل رسول اللہ ان یریھم آیة فاراھم انشقاق القمر مرتین“(صحیح مسلم ج۲، ص۳۷۳)

”مکہ والوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا تو آپ نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ دکھایا۔“

اس حدیث میں ”مرتین“ فلقتین یعنی دوٹکڑے کے معنی میں ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے انھیں ”مرة بعد أخری“ یکے بعد دیگرے شق القمر کا معجزہ دکھایا؛ کیونکہ سیرت رسول سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ شق القمر (چاند کے دو ٹکڑے ہونے) کا معجزہ صرف ایک بار ظاہر ہواہے؛ چنانچہ خود حافظ ابن القیم نے اپنی مشہور کتاب ”اغاثة اللھفان“ میں حدیث مذکور کو نقل کرکے مرتین کا معنی سقتین وفلقتین ہی بیان کیا ہے اوراس کے بعد لکھا ہے۔

ولما خفی ھذا علی من لم یحط بہ علما زعم ان الانشقاق وقع مرة بعد مرة فی زمانین وھٰذا مما یعلم أھل الحدیث ومن لہ خبرة بأحوال الرسول وسیرتہ أنہ غلط وأنہ لم یقع الانشقاق الامرة واحدة (بحوالہ اعلاء السنن،ج۱۱، ص۱۷۹)

”مرتین کا یہ معنی جن لوگوں پر ان کی کم علمی کی بناء پر مخفی رہا انھوں نے سمجھ لیا کہ شق القمر کا معجزہ مختلف زمانوں میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے، علماء حدیث اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال اور سیرت سے واقف اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مرتین کا یہ معنی اس جگہ غلط ہے، کیونکہ شق القمر کا معجزہ صرف ایک ہی بار ظہور میں آ یا ہے۔“

حافظ ابن القیم نے مرتین کی مراد سے متعلق اس موقع پر جو اصول ذکر کیا ہے کہ اگر مرتان سے افعال کا بیان ہوگا تو اس وقت تعداد زمانی یعنی یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہوگا، کیونکہ دو کاموں کاایک وقت میں اجتماع ممکن نہیں ہے، مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ ”اکلتُ مرّتین“ تو اس کا لازمی طور پر معنی یہ ہوگا کہ میں نے دوبار کھایا؛ اس لیے کہ دو اکل یعنی کھانے کا دو عمل ایک وقت میں نہیں ہوسکتا اور جب مرتین سے اعیان یعنی ذات کا بیان ہوگا تواس وقت یہ ”عددین“ دو چند اور ڈبل کے معنی میں ہوگا، کیونکہ دو ذاتوں کا ایک وقت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے۔

موصوف کے اس اصول کے اعتبار سے بھی آیت پاک ”الطلاق مرتان“ میں مرتین، عددین کے معنی میں ہوگا؛ کیونکہ اوپر کی تفصیل سے یہ بات منقح ہوچکی ہے کہ اس آیت میں طلاق رجعی کی تعداد بیان کی گئی ہے۔ تطلیق یعنی طلاق دینے کی کیفیت کا بیان نہیں ہے اور طلاق ذات اور اسم ہے فعل نہیں ہے۔

البتہ امام مجاہد وغیرہ کے قول پر (جن کے رائے میں آیت مذکورہ طریقہٴ طلاق بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ”الطلاق“ تطلیق یعنی طلاق دینے کے معنی میں ہوگا اور طلاق دینا ایک فعل ہے تو اس وقت ”مرتین“ کا معنی مرة بعد اخریٰ اور یکے بعد دیگرے ہوگا، اس معنی کی صورت میں بھی ”الطلاق مرتان“ سے صرف اتنی بات ثابت ہوگی کہ دو طلاقیں الگ الگ آگے پیچھے دی جائیں بیک کلمہ نہ دی جائیں، اس سے زیادہ کوئی اور قید مثلاً تفریق مجلس وغیرہ کی تو اس آیت میں اس کا معمولی اشارہ بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر ایک مجلس یا ایک طہر میں انت طالق، انت طالق تجھ پر طلاق ہے، تجھ پر طلاق ہے۔ الگ الگ تلفظ کے ذریعہ طلاق دی جائے تو یہ صورت ”الطلاق مرتان“ طلاق یکے بعد دیگرے ہے، کے عین مطابق ہوگی، لہٰذا اس آیت کے مطابق یہ دونوں طلاقیں ایک مجلس یا ایک طہر میں ہونے کے باوجود واقع ہوجائیں گی اور جب اس آیت کی رو سے ایک مجلس یا ایک طہر کی متعدد تلفظ سے دی گئی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو ایک تلفظ سے دی گئی طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی؛ کیونکہ ایک مجلس میں دی گئی دونوں طلاقوں (یعنی ایک تلفظ سے اور متعدد تلفظ سے) کا حکم بغیر کسی اختلاف کے سب کے نزدیک یکساں ہے۔ (دیکھیے احکام القرآن امام جصاص رازی ج۱، ص۳۸۶، المطبعة السلفیة، مصر)

اسی بناء پر جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آیت ”الطلاق مرتان“ میں طلاق دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور ”مرتین“ مرة بعد اخریٰ یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہے وہ حضرات بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ اگرچہ طلاق دینے کا یہ طریقہ غلط ہے؛ لیکن غلط طریقہ اختیار کرنے سے طلاق کے وقوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ہاں اس طرح طلاق دینے والاغلط طریقہ اختیار کرنے کا مجرم ہوگا۔

آیت طلاق پر اس تفصیلی بحث سے یہ بات کھل کر معلوم ہوگئی کہ آیت پاک میں واقع لفظ ”مرتین“ کا معنی مرة بعد اخریٰ یعنی یکے بعد دیگرے بھی صحیح ہے اور ثنتین یعنی دو کا معنی بھی درست ہے۔ نیز دونوں معنی کے اعتبار سے ایک مجلس یا ایک تلفظ میں دی گئی تین طلاقیں اس آیت کی رو سے واقع ہوجائیں گی اور اس کے بعد بحکم قرآن ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ“ حق رجعت ختم ہوجائے گا؛ اس لیے جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کے بعد بھی حق رجعت باقی رہتا ہے وہ قانون الٰہی کی مقررہ حد کو توڑ رہے ہیں اور ایک چور دروازہ نکال رہے ہیں؛ تاکہ ظالم شوہروں کو مزید ظلم کا موقع ہاتھ آجائے یا کم از کم قانون کے دائرہٴ اثر کو محدود اور تنگ کررہے ہیں؛ جب کہ اس تحدید کا کوئی ثبوت نہ آیت کریمہ میں ہے اورنہ اس کاکوئی اشارہ ان روایتوں میں ہے جو اس آیت کے سبب نزول سے متعلق ہیں۔ علاوہ ازیں قانون بحیثیت قانون کے اس طرح کی حدبندیوں کو برداشت بھی نہیں کرتا وہ تو اپنے جملہ متعلقات کو حاوی ہوتا ہے نیز اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک بتاتے ہوئے بہ طور استدلال کے اس آیت کو پیش کرتے ہیں ان کا یہ طرز عمل خالص مغالطہ پر مبنی ہے، علمی استدلال سے اس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔

(۲) حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع پر آیت کریمہ ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی نکح زوجاً غیرہ“ سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

فالقرآن واللہ أعلم یدل علی ان من طلق زوجة لہ دخل بھا أو لم یدخل بھا ثلثة لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (کتاب الام، ج۵، ص۱۶۵ و سنن الکبریٰ، ج۱، ص۳۳۳)

”اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ قرآن حکیم کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں خواہ اس نے اس سے ہم بستری کی ہو یا نہ کی ہو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔“

امام شافعی کا استدلال فان طلقہا کے عموم سے ہے؛ کیونکہ ”فان طلق“ فعل شرط ہے جو عموم کے صیغوں میں سے ہے، جیساکہ اصول کی کتابوں میں مصرح ہے، لہٰذا اس کے عموم میں ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی داخل ہوں گی۔

یہی بات علامہ ابن حزم ظاہری بھی لکھتے ہیں، چنانچہ ”فان طلقھا فلا تحل لہ الآیة“ کے تحت لکھتے ہیں۔

فھذا یقع علی الثلاث مجموعة ومفرقة ولا یجوز أن یخص بھذہ الآیة بعض ذلک دون بعض بغیر نص (المحلی، ج۱۰، ص۲۰۷) یعنی فان طلقہا کالفظ ان تین طلاقوں پر بھی صادق آتا ہے جو اکٹھی دی گئی ہوں اور ان پر بھی جو الگ الگ دی گئی ہوں اور بغیرکسی نص کے اس آیت کو خاص کسی ایک قسم کی طلاق پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔

ایک بے بنیاد مفروضہ

اس صحیح استدلال کی تردید میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت کے عموم سے اکٹھی طلاقیں خارج ہیں؛ کیونکہ شریعت اسلامی میں اس طرح مجموعی طلاقیں دینی ممنوع ہیں، اب اگر ان ممنوع طلاقوں کو آیت کے عموم میں داخل مان کر ان کے نفاذ کو تسلیم کرلیا جائے تو شریعت کی ممانعت کا کوئی معنی ہی نہ ہوگا اور یہ رائیگاں ہوجائے گا۔

بظاہر ان لوگوں کی یہ بات بڑی وقیع اور چست نظر آتی ہے؛ لیکن اصول وضوابط اور شرعی نظائر میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک بے بنیاد مفروضہ سے زیادہ کی نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس جواب میں سبب اوراس کے اثر وحکم کو گڈمڈ کرکے یہ غلط نتیجہ برآمد کرلیاگیا ہے؛ جب کہ اسباب اور ان پر مرتب ہونے والے احکام و آثار الگ الگ دو حقیقتیں ہیں۔ اسباب کے استعمال کا مکلف بندہ ہے اور ان سباب پر احکام کا مرتب کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، لہٰذا جب شریعت کی جانب سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں کام کا فلاں حکم ہے تو بندئہ مکلف سے جب بھی وہ فعل وجود میں آئے گا لامحالہ اس کا اثر اور حکم بھی ظہور پذیر ہوگا؛ البتہ اگر وہ فعل غیرمشروع طور پر اللہ تعالیٰ کی اذن واجازت کے خلاف صادر ہوگا تواس کا کرنے والا عند اللہ معصیت کار ہوگا اور اس عصیان پر اس سے مواخذہ ہوسکتا ہے۔ رہا معاملہ اس فعل پر اس کے حکم واثر کے مرتب ہونے کا تو فعل کے جائز وناجائز ہونے کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے، اللہ تعالیٰ عز شانہ نے فعل مباشرت یعنی عورت کے ساتھ ہم بستری کو وجوبِ غسل کے لیے سبب بنایا ہے اب اگر کوئی شخص جائز طور پر اپنی بیوی سے مباشرت کرے تواس پر شریعت کی رو سے غسل فرض ہوجائے گا۔ اسی طرحاگر کوئی بدکار کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہی کام کرے تو اس فعل کے حرام وممنوع ہونے کے باوجود اس پر بھی شرعاً غسل فرض ہوجائے گا، افعال شرعی میں اس کے نظائر بہت ہیں اس موقع پر ان نظائر کاجمع کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مسئلہ کی وضاحت پیش نظر ہے؛ اس لیے اسی ایک نظیر پر اکتفا کیا جارہا ہے۔

بعینہ یہی صورت طلاق کی بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے فعل طلاق کو قید نکاح سے رہائی کا سبب اور ذریعہ قرار دیا ہے، لہٰذا جب شخص مکلف سے فعل طلاق کا صدور ہوگا تو لازمی طور پر اُس کے اثر وحکم کا بھی ثبوت ہوگا۔ چاہے طلاق کا یہ عمل شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق وقوع میںآ یا ہو یا غیرمشروع طور پر؛ البتہ غیرمشروع اور ممنوع طریقہ اختیار کرنے کی بنا پر وہ شریعت کی نگاہ میں قصور وار ہوگا اور اس کی بندگی واطاعت شعاری کا تقاضا ہوگا کہ ممکن حد تک اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کرے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض ایک طلاق دے دی تھی، جس کا ناجائز وممنوع ہونا شرعاً مسلم ہے، اس کے باوجود اس طلاق کو نافذ مانا گیا۔ پھر چونکہ یہ ایک طلاق تھی جس کے بعد رجعت کا حق باقی رہتا ہے۔ لہٰذا رجعت کرکے اس غلطی کی تلافی کا موقع تھا؛ اسی لیے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رجعت کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رجعت کرلینے کے بعد اگر طلاق دینے ہی کی مرضی ہوتو طہر یعنی پاکی کے زمانہ میں جو مجامعت اور ہم بستری سے خالی ہو طلاق دینا، حضرت عبداللہ بن عمر کے اس طلاق کا واقعہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن کبریٰ، سنن دارقطنی وغیرہ کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عمر کی یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ممنوع اور ناجائزطور پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس صریح وصحیح نص کے مقابلہ میں اس قیاسی مفروضہ کی کیا حیثیت ہے یہ ارباب علم ودانش پر مخفی نہیں، عیاں را چہ بیاں۔

عجیب انداز فکر

پھر یہ بات بھی کس قدر دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو اس کے ممنوع وغیر مشروع ہونے کی بناپر آیت کے عموم سے خارج اور غیر نافذ کہہ کر اسے ایک طلاق قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق بھی ممنوع غیرمشروع اور طلاق بدعی ہے پھر بھی یہ ممنوع طلاق نافذ ہوجائے گی؛ جب کہ ان کے مفروضہ کے مطابق وہ نافذ نہیں ہونی چاہیے، ملاحظہ ہوگروہ اہل حدیث (غیرمقلدین) کے رئیس اعظم جناب نواب صدیق حسن خاں قنوجی مرحوم کے فرزند ارجمند جناب نواب میرنورالحسن خاں المتوفی ۱۳۳۶ھ کی حسب ذیل عبارت:

”اوازادلہ متقدمہ ظاہر است کہ سہ طلاق بیک لفظ یا دریک مجلس بدون تخلل رجعت یک طلاق باشد اگرچہ بدعی بود ایں صورت منجملہ صور طلاق بدعی واقع است با آنکہ فاعلش آثم باشد نہ سائر صور بدعی کہ در آنہا طلاق واقع نمی شود“ (عرف الجادی من جنان ہدی الہادی ص۱۲۱، م مطبع صدیقی بھوپال ۱۳۰۱ھ)

”اوپر بیان کردہ دلیلوں سے ظاہر ہے کہ ایک لفظ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں جب کہ درمیان میں رجعت نہ ہو ایک طلاق ہوگی، اگرچہ یہ بھی بدعی ہوگی طلاق بدعی کی یہ قسم دیگر بدعی طلاقوں کے برخلاف نافذ ہوگی اور اس کا مرتکب گنہگار بھی ہوگا اور طلاق بدعی کی بقیہ ساری قسموں میں طلاق واقع نہیں ہوں گی۔“

سوال یہ ہے کہ ممنوع اور غیر مشروع ہونے میں ایک مجلس کی تین طلاقیں اور تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق دونوں برابر اور یکساں ہیں یا دونوں کی ممنوعیت وغیرہ مشروعیت میں تفاوت ہے اگر دونوں میں تفاوت اور کمی بیشی ہے تو اس تفاوت پر شرعی نص درکار ہے۔ بالخصوص جو لوگ دوسروں سے ہر بات پر کتاب وسنت کی نص کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، ان پریہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل پیش کریں اوراگر دونوں کی ممنوعیت یکساں ہے اوریہی بات جناب میرنورالحسن خاں مرحوم کی عبارت سے ظاہر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ مفروضہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم اور قابل عمل نہیں ہے؛ بلکہ مغالطہ اندازی کے لیے ایک ایسی بات چلتا کردی گئی ہے جو واقعیت سے یکسر بے بہرہ اور محروم ہے۔

(۳) ”تلک حدود اللہ ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا الآیة“

”یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں جو کوئی اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا اس کو کیا خبر کہ شایداللہ پیدا کردے اس طلاق کے بعد کوئی نئی صورت۔“

اس آیت پاک کا ظاہر یہی بتارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کاجو حق مرد کو دیا ہے اگر وہ اس کو بیک دفعہ استعمال کرلے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی؛ البتہ ایسا کرنا خود اس کی اپنی مصلحت کے خلاف ہوگا؛ کیونکہ اگر تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے حق رجعت دے دیاجائے تو پھر اس کہنے کا کیا معنی ہوگا کہ ”لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا“ اسے کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعدکوئی نئی صورت یعنی باہمی موافقت وغیرہ کی پیدا فرمادے؛ اس لیے کہ تین کوایک شمار کرنے کی صورت میں تو رجعت کا حق اور موافقت کی صورت باقی ہی ہے۔

چنانچہ شارح صحیح مسلم امام نووی لکھتے ہیں:

”احتج الجمھور بقولہ تعالیٰ ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ الآیة قالوا معناہ ان المطلق قد یحدث لہ ندم فلا یمکنہ تدارکہ لوقوع البینونة فلو کانت الثلاث لاتقع ولم یقع طلاقہ ھذا الا رجعیا فلا یندم“ (صحیح مسلم مع الشرح، ج۱، ص۴۷۸)

”جمہور نے تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ“ سے استدلال کیا ہے، یہ کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے والے کو بسا اوقات اپنی حرکت پر ندامت ہوتی ہے تو بیک دفعہ تینوں طلاقیں دے دینے کی صورت میں زوجین کے درمیان جدائی واقع ہوجانے سے اس ندامت کا تدارک اور ازالہ نہ ہوسکے گا اگر بیک دفعہ کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتیں تو ندامت کس بات پر ہوتی؛ کیونکہ رجعت کے ذریعہ اس کے تدارک اور ازالہ کی گنجائش موجود ہی ہے۔“

اسی بات کو امام جصاص رازی اپنے انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:

ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ، یدل علی أنہ طلق لغیر السنة وقع طلاقہ وکان ظالما لنفسہ بتعدیة حدود اللہ لأنہ ذکر عقیب العدة فابان أن من طلقہ لغیر العدة فطلاقہ واقع لأنہ لو لم یقع طلاقہ لم یکن ظالمًا لنفسہ ویدل علی أنہ أراد وقوع طلاقہ مع ظلم نفسہ قولہ تعالیٰ عقیبہ، لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک أمرا، یعنی یحدث لہ ندم فلا ینفعہ لأنہ قد طلق ثلاثًا (احکام القرآن، ج۳، ص۴۵۴، مطبوعہ مصر)

”آیت پاک ”ومن یتعد حدود اللہ“ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب مرد طلاق بدعی دے گاتو وہ واقع ہوجائے گی اور وہ اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرنے کی بنا پر اپنی ذات پر ظلم کرنے والا ہوگا یہ دلالت اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”فطلقوھن لعدتھن“ (طلاق دو انھیں ان کی عدت کے موقع پر) کے بعد اس آیت کو ذکر فرمایا ہے تواس سے ظاہر ہوا کہ جو غیر عدت میں یعنی طلاق بدعی دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی ورنہ اپنی ذات پر ظلم کرنے والا کیوں ہوگا اور اس بات پر دلالت کہ ”من یتعد حدود اللہ“ کی مراد اپنے نفس پر ظلم کرنے کے باوجود اس کی طلاق کا واقع ہوجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد جو اس کے بعد آرہا ہے یعنی لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا یعنی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں طلاق پر ندامت پیداکردے اوریہ ندامت اس کے واسطے مفید نہ ہوگی؛ کیونکہ وہ تین طلاقیں دے چکا ہے۔“

علامہ علاء الدین ماردینی نے اس آیت کی یہی تفسیر قاضی اسماعیل کی کتاب احکام القرآن کے حوالے سے امام شعبی، ضحاک، عطاء، قتادہ اور متعدد صحابہ سے نقل کی ہے (الجوہر النقی مع سنن الکبریٰ للبیہقی ج۷، ص۳۲۸) نیز امام قرطبی علامہ جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ اس آیت سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کا ثبوت فراہم ہوتا ہے (دیکھیے الجامع لاحکام القرآن، للقرطبی، ج۱۸، ص۱۵۶-۱۵۷ ، والکشاف للزمخشری ج۴، ص۱۰۹ اور مفاتیح الغیب المشتہر بالتفسیر الکبیر الامام الرازی ج۸، ص۱۵۹)

ان تینوں آیات قرآنیہ سے جن پر ائمہٴ تفسیر کی تشریحات کی روشنی میں گذشتہ صفحات میں بحث کی گئی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تینوں واقع ہوجائیں گی اس کے برعکس کسی آیت سے اشارة بھی یہ بات نہیں نکلتی کہ بیک مجلس یا بیک کلمہ دی ہوئی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔

$ $ $

 

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد:100 ‏، شعبان1437 ہجری مطابق جون 2016ء